یاد ماضی11 /9 کی شب باگرام جیل میں

ستمبر کی 11 تاریخ جب بھی آتی ہے تو دنیا اس کو ولڈٹریڈ سینٹر کی تباہی اور امریکہ کی مظلومیت کے طور پر مناتی ہے اس واقعے کو گزرے 23 سال ہوگئے لیکن اس کی بازگشت ا ب بھی سنائی دیتی ہے اور دنیا اب بھی امریکہ کو مظلوم ثابت کرنا چاہتی ہے وہ الگ بات ہے کہ پرسوں خان یونس کے المواصی حملے جو ہتھیار استعمال ہوئے جس کے نتیجے میں 70 سے زائد فلسطینی پناہ گزین شہید ہوئے وہ سارے ہتھیار امریکی تھے اور اب تک ایک اندازے کے مطابق امریکہ  500 سے زائد اسلحے سے لیس جنگی جہاز اسرائیل کو فراہم کر چکا ہے خیر بات کہیں اور نکل جائے گی ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف کل ٹاپی منصوبے کا افتتاح ہوا تو ایک ساتھی نے پوسٹ شیئر کی کہ
۔” ٹاپی منصوبے کا آج باقاعدہ افتتاح ہونے جا رہا ہے الحمدللہ
اعلیٰ حکام ہرات پہنچ گئے ہیں ۔
اس منصوبے کے افتتاح کے لیے 11 ستمبر تاریخ کا انتخاب کرنا امریکیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کیونکہ 11 ستمبر کو نیویارک میں غم منایا جاتا ہے اور ہم خوشی منارہے ہیں "۔
ٹاپی منصوبہ کیا ہے تو یہاں اتنا ہی بتا دیتا ہوں کہ یہ ایک گیس پائپ لائن منصوبہ ہے جو ترکمانستان سے شروع ہوکر افغانستان ،پاکستان سے گزر کر بھارت میں اختتام پذیر ہوجائے گا تفصیل پھر کس وقت بتا دیں گے یا پھر ہماری ویب سائٹ پھر دیکھ لیں ۔
واپس 11 ستمبر کی طرف آتے ہیں آج سے 19 سال قبل ہمارے ایک دوست صحافی عبدالہادی نے 11 ستمبر کی شب باگرام جیل سے رپورٹنگ کی تھی اور اپنی روداد القلم اخبار کو بھیجی تھی جس کو اخبار میں ” 9/11 کی شب” سے شائع کیا تھا اس کالم میں امریکی سفاکیت اور جیل میں ہونے والے مظالم بیان کیے تھے تو سوچا کیوں نہ یاد ماضی کو تازہ کر دیا جائے اور وہ کالم پھر سے اپنے قارئین کی نظر کر دیں۔

۔9/11 کی شب

عبدالہادی کہسار قلم

اس کرہ ارض پر ایک ہی وقت میں کیسی کیسی دومتضاد تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک طرف خوشیاں ہیں ،ہنسی مذاق ہے تو دوسری طرف دکھ وغم اور افسردگی ہے ۔ عجیب تماشہ ہے یہ دنیا اس تماشے کی ایک شب میں نے بھی دیکھی جہاں پر تمام دینا کے لوگ کسی کی یاد میں آنسو بہا رہے تھے لیکن ان آنسوکے پیچھے ایک پر فریب منظر تھا۔دنیا میں اپنے آ پ کو مظلوم ظاہر کرنے والے یہ گورے خود کتنے ظالم ہیں اس کا اندازہ اسی کو ہوسکتا ہے جوان کے قریب ہو۔آج کی روداد یاایک کہانی جو کہ میرا آنکھوں دیکھا حال ہے وہ قارئین کی نظر کرتا ہوں۔
میں کوئی کالم نگار تو نہیں ہوں لیکن پتہ نہیں کیوں کچھ ایسے مناظر نے مجھے مجبور کردیا کہ اپنے قلم کا استعمال کروں اور وہ کچھ بیان کروں جو میں نے 9/11 کی شب باگرام ائیرپورٹ پر دیکھا۔ دنیاوالوں نے تو امریکہ کی مظلومیت دیکھی اخبارات میں 9/11 کی چوتھی برسی کو بڑے ہی عقیدت مندانہ انداز میں پیش کیا گیا کچھ ہمارے اپنوں نے اظہار ہمدردی کے آنسو بھی بہادیئے ۔ لیکن آج ان امریکیوں سے محبت کرنے والوں سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، آپ کو کچھ دیکھانا چاہتا ہوں ۔ آپ فیصلہ خود ہی کریں کہ حقیقی دہشت گرد کون ہے؟

شب 10 بجے باگرام ایئر پورٹ پر مجھے یوایس آرمی فورس کی گاڑی لینے آئی۔ مجھے فورس والے اپنی گاڑی میں بیٹھا کر با گرام ایئر پورٹ پر لے گئے وہاں پر میری مکمل تلاشی لی گئی اور میرے پاس جو کچھ تھا وہ سب کچھ مجھ سے انہوں نے لے لیا۔ اب میں خالی جیب یعنی خالی ہاتھ خالی جیب۔ اس لئے کہ انہوں نے مجھے اندر لے جانے کیلئے میرے جیبوں میں پڑھے ہوئے نوٹ کے ساتھ ساتھ کا غذات بھی لے لئے۔ اب میں خالی ہاتھ اور جیب کے باگرام ایئر پورٹ پر ہوں۔ وہاں پر میرا انتظار کرنے والا ایک امریکی افسر تھا جو کہ آج کی محفل میں مجھے بھی اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتا تھا۔ محفل ایک یادگار محفل جو کہ ان کی یاد میں منعقد کی گئی تھی جو 9/11 کا شکار ہوئے۔ آج کی رات 12 بجنے میں ایک گھنٹا باقی تھا۔ ابھی میری اور اس افسر کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ موم بتی ہاتھوں میں لئے ہوئے کئی افراد جن میں خواتین امریکی زیادہ تھیں ہیں کے گراؤنڈ میں جمع ہونے لگیں اور کچھ گیت گائے یہ تمام تر محفل 9/11 میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں منعقد ہو رہی تھی ۔ گراؤنڈ میں جمع ہونے کے بعد ایک ویڈیو ٹیپ چلائی گئی جس میں ان طیاروں کو دیکھایا گیا جنہوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد رات 12 بجے تمام فوجی افسران اور دیگر لوگوں نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی اس کے بعد کچھ گیت وغیرہ ہوئے۔ کچھ لوگ آنسو بہا بہا کر رو رہے تھے اور ہر کسی کے چہرے پر افسردگی تھی۔ اسی اثناء میں مجھے کچھ چیخ و پکار سنائی دی۔ جس نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں اس چیخ و پکار کی طرف گیا جہاں سے یہ آواز آ رہی تھی لیکن میں وہاں تک پہنچ نہ سکا۔ اس کی وجہ امریکی افواج کا پہرہ تھا۔ لیکن اس چیخ و پکار سے یہ اندازہ مجھے ہو رہا تھا کہ کسی افغان قیدی پر تشدد ہو رہا ہے۔ اور وہ اسی تشدد کی وجہ سے چیخ رہا ہے۔ اس کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی لیکن میں اس تک پہنچ نہیں سکتا تھا۔ جب اس کی مدد کی امید ختم ہوئی تو میں واپس اس امریکی افسر کا منتظر ہو گیا جس نے مجھے مدعو کیا تھا۔ آخر کار لمبے انتظار کے بعد وہ آ گیا اور اس نے 9/11 کے پیغامات میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے جوانوں کے پیغامات ہیں جو کہ اس مشن میں نکلے جو 9/11 کو شروع ہوا۔ ہمارے نوجوان پر عزم ہیں اور وہ اس کرہ ارض سے دہشت گردی کو مکمل ختم کرنے تک خوف زدہ نہیں ہونگے ۔ آج آپ نے دیکھا کہ وہ سب یہ عہد کر رہے تھے کہ ہمیں دہشت گردوں سے کوئی خوف نہیں ہے۔ ان کی بات سن کر مجھے ہنسی آگئی اور میں سوچ میں پڑھ گیا کس طرح کی یہ باتیں کر رہا ہے خوف کا اس پر تو یہ عالم ہے کہ میرے جیب میں ایک کاغذ تک نہیں چھوڑا سر سے لے کر پاؤں تک مکمل تلاشی لی اور کہہ رہا ہے کہ ہم خوف زدہ نہیں اور ہم پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں کو ختم کرنے کی ۔۔۔۔لیکن چار سال کا عرصہ گزر گیا افغانستان جیسے کمزور ملک پر بھی مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکے۔ اس کی عجیب باتیں سن کر میں کمرے سے باہر آ گیا میں کیا دیکھتا ہوں ایک 15 یا 16 سالہ لڑکا سٹریچر پر ڈالے ہوئے اس کو ڈسپنسری کی طرف لے کر جا رہا تھا۔ میں بھی ڈسپنسری کی طرف روانہ ہوا لیکن امریکی فوجیوں نے مجھے اس طرف جانے سے روک لیا۔ پھر میرے قریب سے وہ لڑکا گزرا اس کی حالت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ افغان کا بیٹا جس کو بے دردی سے کسی نے چھڑی کے ساتھ مارا تھا جس کے ہاتھ اور پاؤں سوجھ گئے تھے اور نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا اس کو ڈسپنسری لے کر جارہے تھے۔ اس کو دیکھنے کے بعد میرے اندر اس سے ملنے کی خواہش جاگ اٹھی  اور میں اس سے ملنے کیلئے کوشش کرنے لگا لیکن کوئی صورت نہ بن پارہی تھی۔ میں بڑی بے چینی سے اس  لڑکے کے ڈسپنسری سے باہر لانے کا منتظر تھالیکن وہ نہیں آیا مجھے اتنے میں ڈسپنسری کی ڈاکٹر وہاں سے نکلی جس سے میری کچھ سلام دعا تھی اس سے ملنے کے بعد اس کے ساتھ میں  نے واپس جانے کا ارادہ کیا وہ بیس  کے اندر رہتی تھی لیکن بیس  کے گیٹ تک میں اس کے ساتھ آیا۔ میں نے اس سے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا پہلے تو وہ لوگ خاموش رہی پھر وہ بولی کہ اس لڑکے کو انہوں نے اس  لئے ٹارچ کیا ہے کہ آج 9/11 رات ہے۔ آج کی  رات ہماری ڈیوٹی سخت ہے کیونکہ جو کچھ آپ نے ابھی دیکھا کہ یہ افواج جنہوں نے 9/11 میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں موم بتیاں روشن کی اور افسردگی کا میں اظہار کیا اس کے ساتھ آج کی رات جتنے بھی طالبان قیدی ہیں ان پر انہوں نے اپنا تشدد کرنا ہے جس لڑکے کو تم نے دیکھا ہے اس کو انہوں نے پہلے کانٹے وار چھڑی کے سے مارا اور جب اس کے زخموں سے خون بہنے لگا تو دے انہوں نے موم بتی سے اس کے زخموں پر موم ڈالی جس سے اس لڑکے کے زخم اور درد کرنے لگے اور یہ لڑکا  برداشت نہ کر سکا اور بے ہوش ہو گیا ۔ اس لیڈی ڈاکٹر کی  بات سننے کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ اتنا ظلم کیوں  کر رہے ہو۔ اس نے کہا کہ میں خود اتنے ظلم کے خلاف ہوں لیکن کیا کریں۔ ایک نفرت کو ہمارے دلوں میں بیٹھا دیا گیا ہے۔ آج مجھے خود اس معصوم لڑکے پر رحم آ رہا تھا ہے اور میں یہ سوال کر رہی تھی کہ آخر اسی کا کیا قصور ہے اور ہے اس طرح دیگر کا کیا قصور ہے۔ لیکن ہم مجبور ہیں آج کی  رات جو کچھ قیدیوں کے ساتھ ہونے والا ہے اس کا تصور جب میں سامنے کرتی ہوں تو مجھے بھی خوف آنے لگتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوتا ہے تو جواب ملا کہ یہ دعا ئیہ  گیت ہونے کے بعد تمام امریکی افواج کو 11 ستمبر کےدن اجازت ہوتی ہے کہ وہ قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں کریں۔ ان سے کوئی پوچھ نہیں ہوگی۔ اس دوران شراب کے نشے میں مست یہ لوگ قیدیوں پر اتنا  تشدد کر لیتے ہیں کہ وہ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ہمارے جیسے ڈاکٹروں سے دوسرے دن ان کا علاج ہے کرواتے ہیں۔ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا ۔ کیا ان میں کوئی ابھی تک شہید بھی ہوا ہے تو اس نے اے جواب دیا اس دفعہ کا ابھی تک تو کوئی نہیں ہوا لیکن پچھلے سال چار افراد تشدد کی وجہ سے شہید ہو گئے۔ میں نے اس کی بات دوبارہ کاٹتے ہوئے پوچھا لیکن اس کا ذکر تو کہیں پر بھی نہیں آیا تو جواب ملا کہ اس کو جعلی مقابلہ قرار دیتے ہوئے یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ افراد فرار ہو رہےتھے۔ لیکن ان کو بھی اسی رات تشدد کر کے مارا گیا تھا۔

گیٹ تک پہنچنے کے بعد وہاں سے مجھے رات 3 بجے دوسری گاڑی کے ذریعے اپنے ہوٹل تک لایا گیا۔ ہوٹل میں آنے کے بعد میں سوچتا رہا کہ دنیا بھر میں 9/11 کو مظلومیت میں پیش کرنے والے خود کتنے ظالم ہیں۔ ایک طرف موم بتیاں جلا کر اپنی معصومیت کا ثبوت دیتے ہیں تو دوسری طرف معصوم لوگوں کے جسموں پر موم ڈال کر ان کے جسم جلاتے ہیں۔ ایک طرف آنسو بہا کر انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو دوسری طرف بے گناہ لوگوں کے آنسوؤں سے کھیلتے ہیں۔ نہ جانے کتنے ماؤں کے لخت جگر با گرام اور دیگر جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ نہ جانے کتنے بچے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہیں۔ کتنے نوجوانوں کی زندگی انہوں نے حرام کر رکھی ہے۔ آج تو تمام اخبارات میں ان لوگوں کا تذکرہ تو کیا جاتا ہے جو 9/11 میں ہلاک ہوئے لیکن اس کے بعد جو کچھ ان گمنام قیدیوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس پر عالمی میڈیا بھی خاموش ہے۔ کیونکہ 9/11 کو بڑا ظلم ہوا۔ لیکن جو کچھ ابھی ہو رہا ہے وہ ظلم نہیں ہے۔ وہ دہشت گردی نہیں ہے۔ آج ہم سب لوگ 9/11 کے گوروں کو یاد کرتے ہیں لیکن اپنوں کی فکر نہیں ہے۔ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہو جائے وہی اس کے حق دار ہیں۔ کیونکہ ہم روشن خیال میں آج ہم اپنوں کو نشانہ تنقید بنانا فخر سمجھتے ہیں اس لئے تو غیر بھی ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ ہم اپنوں کے بھی نہیں ہو سکتے آج ایک غیر ملکی لیڈی ڈاکٹر کے دل کے اندر تو ہمدردی پیدا ہو گئی لیکن ہم لوگ یہی کہتے ہیں کہ جو کچھ ان قیدیوں کے ساتھ ہو رہا ہے سب ٹھیک ہو رہا ہے۔ آج اپنوں کے منہ سے یہ باتیں سننے کو مل رہی ہے۔ ان تمام تر حالات کو دیکھ کر ہم صرف اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ہم ان مجاہدین کی مخالفت کو ترک کردیں۔ کیا ان جیلوں میں بند یہ مجاہدین اسلام انسانی حقوق کے حق دار نہیں ہیں۔ کیا آج ہم میں سے کوئی بھی ایسا موجود نہیں ہے جو ان کیلئے ایک شب اللہ کے سامنے سر بسجود ہو کر ایک آنسو بہادے کہ اللہ ان کے حال پر رحم کرے۔ کیا کوئی نہیں ہے جو ان کے حقوق کی بات کرے۔ کیا ہمیشہ ہم گوروں کے تذکرے کرتے رہیں گے اور ان کی یاد میں لکھتے رہیں گے 9/11 کی شب میں نے جو دیکھا اس کو میں ساری عمر نہیں بھول سکتا  آج بھی وہ معصوم لڑکے کا چہرہ میرے سامنے ہے اور سوال کر رہا ہے آخر میرا قصور کیا ہے۔ مجھے کس جرم کی پاداش میں سزا دی جارہی ہے۔ میرے لئے کوئی بھی آواز بلند کرنے والا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟  یہ ایک شب کی کہانی تھی جو بیان کر دی یہی میرا بس تھا۔

یہ تھی آج سے 19 سال قبل کی  باگرام جیل سے ایک صحافی کی روداد جو ستمبر 2005 کو ہفت روزہ القلم میں شائع ہوا

آپ کو یاد ماضی میں یہ کالم کیسا لگا اپنی رائے ضرور دیجئے گا اگر آپ کو اس طرح کے کالم پسند کرتے ہیں تو ہم مزید بھی شائع کرتے رہیں گے

بشکریہ القلم

یہ کوئی جانوروں کا پنجرہ نہیں ہے بلکہ باگرام جیل کے سیل ہیں جس میں امریکی مجاھدین کو قید کرتے تھے

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے