امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کا ادھورا خواب جو آج شرمندہ تعبیر ہوا

تحریر: سیف العادل احرار

امارت اسلامیہ کے بانی امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کا ملک میں قیام امن اور نفاذ اسلام کے بعد جو دیرینہ خواب تھا وہ اقتصادی ترقی پر مبنی تھا جس کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے 1997 میں اس وقت کے وزیر خارجہ مولوی وکیل احمد متوکل اور ترکمنستان کے وزیر خارجہ بورس شیخ مرادوف نے مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کے بعد ٹاپی پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا تھا تاہم امریکی جارحیت کے بعد یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا۔
امارت اسلامیہ کے دوبارہ قیام کے بعد حکام نے ٹاپی منصوبے کے جلد آغاز کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کوشش شروع کر دی، کچھ تکنیکی مسائل کو حل کرنے کے بعد 16 دسمبر 2023 کو وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے ترکمنستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ مل کر افغانستان اور ترکمنستان کے درمیان سرحد پر واقع ٹاپی پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے کے ابتدائی کاموں کا جائزہ لیا اور چند ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد آج نائن الیون کو ٹاپی منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کر دیا گیا اور یوں امارت اسلامیہ کے دور ثانی میں ایک درویش امیر کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔

اس حوالے سے امارت اسلامیہ کے وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے ترکمانستان کے سرحدی علاقے سلیم چشمہ ماری میں منعقدہ ایک پروقار افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ اس افتتاح کے بعد گیس، بجلی، ٹیلی کمیونیکیشن اور ٹرانسپورٹ کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا گیا۔
ترکمانستان کے وزیر خارجہ راشد مرادوف اور دیگر اعلی حکام نے ملا محمد حسن اخوند کا والہانہ استقبال کیا جب کہ افتتاحی تقریب میں ازبکستان کی قومی قیادت نے بھی شرکت کی اور صدر نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔
افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے اس دن کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ یہ وہ دن ہے جس کا کئی سالوں سے انتظار تھا اور بہت سی مشکلات کے بعد یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔
ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے منصوبے خطے کے علاوہ دونوں ممالک کے لیے بھی اہم ہیں۔

امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ یہ منصوبہ آج شروع ہوا ہے، جو پہلے مرحلے میں صوبہ ہرات تک مکمل کیا جائے گا، دوسرے مرحلے میں ہلمند اور تیسرے مرحلے میں قندہار تک مکمل کیا جائے گا، اس کی تکمیل کے ساتھ گیس کی ترسیل بھی شروع کر دی جائے گی، جو سستی قیمت پر افغان عوام کو فراہم کی جائے گی۔
اس پائپ لائن کی کل لمبائی 1814 کلومیٹر ہے جس میں دو سو کلو میٹر ترکمنستان، 816 کلومیٹر افغانستان اور 800 کلو میٹر پاکستان سے گزر کر بھارت تک پہنچے گی۔
اس پائپ لائن کے ذریعے 33 بلین کیوبک میٹر گیس فراہم کی جائے گی جن میں پانچ ارب کیوبک میٹر افغانستان میں خرچ ہوں گے۔ اس پائپ لائن کے ساتھ 12 پریشر پمپ لگائے جائیں گے جن میں سے پانچ افغانستان میں لگائے جائیں گے۔
ایک اندازے کے مطابق ٹاپی منصوبے پر 10 ارب ڈالر لاگت آئے گی اور معاہدے کے مطابق افغانستان کو ہر سال 450 ملین ڈالر ٹرانزٹ فیس کے طور پر ادا کیے جائیں گے۔ یہ طے ہوا ہے کہ اس منصوبے سے افغانستان میں 12 ہزار افراد کو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور افغانستان بھی اس گیس سے بجلی پیدا کر سکے گا۔
ٹاپی منصوبے کے آغاز سے افغانستان کو پہلی بار یہ موقع ملا ہے کہ وہ علاقائی سطح پر اپنے جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھا کر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرے۔
اس کے علاوہ ٹاپ منصوبہ جو ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان تک بجلی کی ترسیل کا اہم منصوبہ ہے، ان دونوں منصوبوں پر عمل درآمد سے افغانستان علاقائی اقتصادی راہداری میں تبدیل ہو جائے گا۔ ان دونوں منصوبوں سے افغانستان کو سالانہ 500 ملین ڈالر کی آمدنی حاصل ہوگی۔

ٹاپی اور نئی امید:۔

ٹاپی منصوبے پر 27 برس کے بعد عمل درآمد شروع ہوا جس سے ملک بھر کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور یہ قوش تپہ، مس عینک، پیٹرولیم مصنوعات کے بعد چوتھا بڑا منصوبہ ہے جس سے افغانستان کو اقتصادی لحاظ سے بڑا فائدہ ملے گا کیونکہ اس کے نفاذ سے ایک طرف افغانستان کو آمدنی کا ذریعہ مل رہا ہے تو دوسری طرف وہ خطے کی سیاسی اور سلامتی کی صورتحال پر اثر انداز ہوگا۔
امارت اسلامیہ کے حکام ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امارت اسلامیہ نے اپنی پالیسی معیشت کی ترقی پر مبنی تشکیل دی ہے اور پڑوسی ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ سیکورٹی کے مسائل سے بالاتر ہوکر علاقائی سطح پر معیشت پر مبنی سیاست کو اپنائیں۔
امارت اسلامیہ کے حکام ملک کی ترقی کے لئے بنیادی منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں اہمیت دیتے ہیں، اسی لئے یہ چوتھا بڑا منصوبہ ہے جو تین سال کی مختصر مدت میں شروع کیا گیا ہے۔
اس حکمت عملی کے تحت بڑے علاقائی منصوبوں کے نفاذ سے حریف ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے طور پر اس ملک میں بدامنی کی چاہت سے گریز کریں گے اور قیام امن کی کوششوں میں ساتھ دینے پر مجبور ہوں گے جس کے مثبت اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔

افغانستان کا ٹرانزٹ کردار:۔

ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران افغانستان اور پڑوسی ممالک کے درمیان سیاسی اور سکیورٹی کے معاملات اقتصادی تعلقات میں تبدیل ہورہے ہیں، اور اب افغانستان بھی توانائی اور اقتصادی شعبوں میں علاقائی سطح پر ایک اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر سامنے آیا ہے اور اسی اہمیت کی بدولت تاجکستان سے بجلی کی لائن کو افغانستان کے راستے پاکستان تک پہنچانے کے کاسا 1000 پروجیکٹ پر اتفاق، افغانستان، بھارت اور ایران کے درمیان تعاون کے نتیجے میں چابہار بندرگاہ کو فعال بنانے اور اب ٹاپی اور اس کے ہمراہ دیگر منصوبے اس حکمت عملی کی اچھی مثالیں ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کو ترکی اور یورپی ممالک کی بندرگاہوں سے ملانے والے لاجورد کوریڈور کو ایک بار پھر فعال کرنے پر متعلقہ ممالک کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
اس خطے میں اقتصادی تعاون اس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ علاقائی ممالک اور دنیا کے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں واضح تبدیلی آئی ہے جس کے مثبت اثرات جلد نمایاں طور پر ظاہر ہوں گے۔

بشکریہ الامارہ اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے