امارت اسلامیہ کو خوش آمدید!۔

محمد افغان

افغانستان میں عوام کو مجموعی طور پر اِس نکتے سے بہت اطمینان ہے کہ اُنہیں 45 سال بعد امن و امان کے وہ دن دیکھنا نصیب ہوئے ہیں، جن کے لیے تقریباً 3 نسلیں قربان ہو گئی ہیں۔ بلاشبہ افغانستان نے یہ درد ہمیشہ تب ہی دیکھا ہے، جب اِس ملک میں غیروں نے اپنے مذموم مقاصد کے پنجے گاڑے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ غیروں کے پنجوں کو یہاں مضبوط کرنے میں ہمیشہ وہی لوگ میسر رہے ہیں، جنہیں دینی اور مقامی ثقافت کے ساتھ کوئی لگاؤ اور وفاداری کا تعلق نہیں تھا۔ اس کی واضح مثالیں روسی جارحیت کے دوران روس کو ڈاکٹر نجیب جیسے مقامی کمیونسٹ دماغوں نے ہی مدد فراہم کی۔ اسی طرح امریکی جارحیت کے دوران بھی اشرف غنی جیسے افراد ہی میسر رہے ہیں، جس کی وجہ سے افغانستان کی ذاتی معیشت ہمیشہ دَراَنداز قوتوں کے رحم و کرم پر رہی ہے۔
جب امریکا افغانستان میں موجود تھا، تب یہاں مالی حالات ایسے تھے کہ تقریباً ہر تیسرا فرد ڈالر جیب میں لیے گھومتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ امریکا اپنے مفادات کی خاطر خود سے قریبی تعلق رکھنے والے مقامی غنڈہ مزاج لوگوں کو ڈالروں کے عوض استعمال کرتا تھا۔ وہی ڈالر زینہ بہ زینہ اُترتے ہوئے عام آدمی کی جیب میں بھی پہنچ جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے یہاں عیاشیوں اور قتل و غارت گری کی فراوانی تھی۔ لوگ ایک طرح سے مالی سہولت محسوس کر رہے تھے۔ جب امریکا کو ذلت آمیز انخلا کا سامنا کرنا پڑا تو ساتھ ہی ڈالروں کی وہ بارش بھی ختم ہو گئی، جو امریکی دہشت گرد فوج کی جانب سے یہاں برسائی جا رہی تھی۔ اسی بارش کی بنیاد پر یہاں ایک ایسی معیشت جنم لے چکی تھی، جو درحقیقت ایک ‘ہوائی معیشت’ تھی۔ اُس معیشت کا افغانستان کے زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ البتہ اُس ‘ہوائی معیشت’ کے ختم ہونے پر افغان عوام، خصوصا تاجر برادری کی وہ آمدن کم ہو گئی، جو خریداری کی بنیاد پر ڈالروں کی صورت میں جاری و ساری تھی۔ تب مالی وسعت کی بنیاد پر تاجر برادری سمیت عام افراد بھی بے انتہا خوش تھے۔ اگرچہ اسلامی نکتۂ نظر سے افغانستان کئی سال پیچھے رہ گیا تھا۔
البتہ جب امارت اسلامیہ قائم ہوئی اور امریکی فوج کی جانب سے ڈالروں کی برسات تھم گئی تو فطری نتیجے کے طور پر وہ ہوائی یا مصنوعی معیشت بھی دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔ اگر افغانستان میں امریکی موجودگی کے دوران “معاشی وسعت” کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ “وہ معاشی حالت اُسے شیرخوار بچے کی طرح تھی، جسے اپنی فطری نشوونما کی بنیاد پر اپنے پاؤں کی طاقت سے چلنے کا انتظار کرنے کے بجائے اُسے بیساکھی کے سہارے چلانے کی کوشش کی جائے۔ البتہ جیسے ہی اُس سے بیساکھی واپس لی جائے تو وہ بچہ زمین پر گِر چوٹ لگوا لے۔”۔
موجودہ افغان حکومت اپنی معیشت کو شیرخوار بچے کی مثال کے ساتھ اور افغانستان کے معروضی حقائق کی بنیاد پر نشوونما دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطری اور معروضی حقائق کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے سالانہ بجٹ میں غیرملکی قرضوں کا کوئی بوجھ ملک پر مسلط نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ بچے کی مثال کے تناظر میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں لازمی وقت کا انتظار تو کرنا ہی ہوگا، مگر یہ انتظار آنے والے وقت میں افغان معیشت کو ایسی جوانی دینے والا ہے، جس کی بنیاد پر افغانستان ایک بڑی اور خودمختار معیشت بننے جا رہا ہے۔ وہی افغانستان کی “زمینی معیشت” ہوگی۔
اس لیے جیسے بجائے خود امارت اسلامیہ ایک فطری وقت کے انتظار میں چل رہی ہے، ویسے ہی عوام بھی انتظار کا یہ فطری گھونٹ پی رہے ہیں۔ البتہ انتظار کی اس مشکل گھڑی کے باوجود عوام اِس نکتے سے بہت خوش، بلکہ پُرامید ہیں کہ “بنیادی ضروریات کے تناظر میں عوام کو عرصے سے جس امن و امان اور بے خوف فضا کی ضرورت تھی، وہ بہرحال اب میسر ہے۔ ظاہر ہے، معیشت ہمیشہ ایسے ہی پُرمان ماحول میں پنپتی ہے۔ اسی لیے زمینی حقائق کے ادراک سے بہرہ مند عوام امارت اسلامیہ کو خوش آمدید کہتے ہیں!”۔

بشکریہ الامارہ اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے