تل ابیب : ڈیڈھ لاکھ یہودی آباد کاروں کا نیتن یاھو کا تختہ الٹنے کا مطالبہ

اسرائیلی ریاست میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف دسیوں ہزار افراد کے ہفتہ وار احتجاج کی مہم اس ہفتے کے روز بھی جاری رہی ہے۔ ہفتے کے روز کی تل ابیب میں احتجاجی ریلی میں دسیوں ہزار اسرائیلی شریک ہوئے۔

ریلی کے شرکاء کے ہاتھوں میں اسرائیلی جھنڈے زبانوں پر نئے انتخابات کرانے کے لیے زور دار نعرے تھے۔ ریلی کے منتظمین کے مطابق ریلی میں ڈیڈھ لاکھ کی تعداد میں اسرائیلی شریک رہے۔

تل ابیب میں نکالی گئی اس ریلی کے یہ ہزاروں شرکاء اس امر پر بھی غصے میں تھے کہ اس قدر طویل جنگ کے باوجود نیتن یاہو حکومت یرغمالیوں کو واپس لانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ نیتن یاہو حکومت کی جگہ نئی منتخب حکومت کو لانے کے لیے جاری احتجاج کو اسرائیلی اپوزیشن جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔

یہ احتجاج سات اکتوبر سے جاری جنگ جو اب نویں ماہ کو پہنچنے والی ہے کے ساتھ ساتھ ہی نیتن یاہو حکومت کے خلاف جاری ہے۔ اس سارے عرصے میں احتجاج کی کوئی نہ کوئی صورت باقی رہی ہے۔ جو نیتن یاہو کی جنگی حکمت عملی کو نشانہ بنانے کے علاوہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس سے معاہدہ کرنے پر زور دینے کے لیے ہوتا رہا مگر مبصرین کے مطابق نیتن یاہو جنگ کو اپنی سیاست بچانے کے لیے طویل کر رہے ہیں۔

اسرائیلی حکومت کی جنگ کو غیر ضروری طوالت دینے کے پیچھے سیاسی بقا کے معاملے کی نشاندہی امریکی صدر جوبائیڈن بھی بھی کر چکے ہیں اور کھل کر اسرائیلی وزیر اعظم کا نام بھی لے چکے ہیں۔

ہفتے کے روز سامنے آنے والی تل ابیب میں احتجاجی ریلی کے شرکاء اسی سبب نیتن یاہو کو پرائم منسٹر کے بجائے ‘ کرائم منسٹر ‘ کے نام سے کتبے لکھ کر لائے تھے۔ کتبوں پر جنگ روکو ، جنگ ختم کرو کے نعرے بھی درج تھے۔

ریلی میں شریک ایک شخص 66 سالہ ٹھیکیدار شائی ایرل نے کہا ‘ میں اس لیے ریلی میں شریک ہوں کہ میں اپنے پوتے کے اسرائیل میں مستقبل کے حوالے سے خوفزدہ ہوں، اگر ہم نے اس خوفناک حکومت سے نجات نہ پائی تو ہماری اگلی نسل کا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔’

اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘اسرائیلی پارلیمنٹ میں تو سارے چوہے بیٹھے ہوئے ہیں ہم ان کو کس طرح اپنے بچوں کے مستقبل کی حفاظت کی ذمہ داری دے سکتا ہوں۔’

کئی احتجاجی شہری اسرائیلی’ شہر کے ڈیمو کریسی سکوائر’ پر زمین پر لیٹ کر احتجاج کر رہے تھے کہ نیتن یاہو کی حکومت کے ہوتے ہوئے ملک میں جمہوریت کی موت ہو چکی ہے۔

ریلی کے شرکاء سے اسرائیلی خفیہ ادارے شین بیٹ کے سابق سربراہ یوول ڈسکن نے خطاب کرتے ہوئے کہا ‘ نیتن یاہو ملک کا بد ترین وزیراعظم ہے۔’ ریلی کے شرکاء کی اکثریت جنگ کی طوالت سے تنگ تھی اور سمجھ رہی تھی کہ نیتن یاہو اور اس کے انتہا پسند اتحادی صرف اپنی سیاست کے لیے جنگ کو لمبا کر رہے ہیں۔ مگر اس سے اسرائیل کا نقصان ہو رہا ہے۔

ایک پچاس سالہ شکس جس نے صرف اپنے پہلے نام کا بتانا کافی سمجھا کہا ‘ میں ہر ہفتے احتجاج کا حصہ بنتا ہوں کہ نئے انتخابات اسرائیلی کی ضرورت ہیں، نیتن یاہو نہیں۔ اس کے مطابق اگر انتخابات کو 2026 تک التوا میں رکھا گیا تو اس کے نتیجے میں جمہوریت باقی نہیں رہے گی۔

واضح رہے ہفتے کے روز کی تل ابیب کی اس احتجاجی ریلی کے شرکاء کے سات اکتوبر سے اب تک سب سے زیادہ تھے اور یہ ریلی سب سے بڑی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے