امریکہ نے اسرائیل کو سات اکتوبر سے لے کر اب تک 2000 پاؤنڈ وزنی ہزاروں بم بھیجے

دو امریکی حکام نے بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ نے غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کو بڑی تعداد میں گولہ بارود بھیجا ہے جس میں 10,000 سے زیادہ 2,000 پاؤنڈ وزنی انتہائی تباہ کن بم اور ہزاروں ہیل فائر میزائل شامل ہیں۔ یہ حکام ہتھیاروں کی ترسیل کی تازہ ترین فہرست سے آگاہ تھے۔

گذشتہ اکتوبر میں جنگ کے آغاز اور حالیہ دنوں کے درمیان ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے کم از کم 14,000 ایم کے-84 بم 2,000 پاؤنڈ وزنی، 500 پاؤنڈ وزنی 6,500 بم، درستگی سے داغنے والے 3,000 فضا سے زمین پر مار کرنے والے ہیل فائر میزائل، 1,000 مورچہ شکن بم، چھوٹے قطر کے علاقے میں مار کرنے والے 2600 ہوائی بم اور دیگر گولہ بارود منتقل کیے ہیں۔

اگرچہ حکام نے ترسیلات کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں بتائی لیکن ہتھیاروں کی مجموعی تعداد یہ ظاہر کرتی ہے کہ اپنے اتحادی کے لیے امریکی فوجی مدد میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔ اور ایسا ہتھیاروں کی فراہمی محدود کرنے کے بین الاقوامی مطالبات اور انتظامیہ کی طرف سے طاقتور بموں کی ترسیل روکنے کے حالیہ فیصلے کے باوجود ہوا ہے۔

ماہرین نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں آٹھ ماہ کی شدید فوجی مہم میں استعمال ہونے والی رسد کو دوبارہ بھرنے کے لیے جتنی تعداد میں اسلحے کی ضرورت ہو گی، ترسیل کا مواد اس ضرورت سے مطابقت رکھتا ہے۔

سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ہتھیاروں کے ماہر ٹام کاراکو نے کہا، "اگرچہ اسلحے کی یہ تعداد کسی بڑے تنازع میں نسبتاً تیزی سے خرچ ہو سکتی ہے لیکن یہ فہرست ہمارے اسرائیلی اتحادیوں کے لیے امریکہ کی طرف سے کافی حد تک حمایت کی واضح عکاسی کرتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ درج کردہ جنگی ہتھیاروں اس نوع کے ہیں جن کا استعمال اسرائیل حماس کے خلاف لڑائی میں یا حزب اللہ کے ساتھ ممکنہ تنازعہ میں کرے گا۔

ترسیل کے اعداد و شمار جن کی پہلے اطلاع نہیں دی گئی ہے، غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کو بھیجے گئے ہتھیاروں کی تازہ ترین اور وسیع تعداد کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔

اسرائیل اور ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے درمیان حالیہ دنوں میں کشیدگی میں اضافے سے ایک مکمل جنگ چھڑنے کا خدشہ ہے۔

وائٹ ہاؤس نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ واشنگٹن میں اسرائیل کے سفارت خانے نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

امریکی حکام میں سے ایک نے بتایا کہ یہ ترسیل غزہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کو بھیجے گئے ہتھیاروں کی ایک زیادہ بڑی فہرست کا حصہ ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن نے سات اکتوبر سے اسرائیل کو 6.5 بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار بھیجے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے حالیہ ہفتوں میں دعویٰ کیا تھا کہ واشنگٹن ہتھیاروں کو روک رہا تھا۔ اس بات کی امریکی حکام نے بارہا تردید کی ہے حالانکہ انہوں نے کچھ "رکاوٹوں” کو تسلیم کیا تھا۔

بائیڈن انتظامیہ نے 2,000 پاؤنڈ وزنی بموں کی ایک کھیپ اس تشویش کی بنا پر روک دی ہے کہ اس سے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں تباہ کن اثرات کا خدشہ ہے لیکن امریکی حکام کا اصرار ہے کہ دیگر تمام ہتھیاروں کی ترسیل معمول کے مطابق جاری رہے گی۔ ایک 2,000 پاؤنڈ وزنی بم موٹے کنکریٹ اور دھات کو چیر سکتا ہے جس سے دھماکے کا ایک وسیع رداس پیدا ہوتا ہے۔

رائٹرز نے جمعرات کو اطلاع دی ہے کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ بڑے بموں کی کھیپ کے اجراء پر بات کر رہا ہے جسے مئی میں رفح میں فوجی کارروائی کے خدشات کی بنا پر روک دیا گیا تھا۔

غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی کی بین الاقوامی تنقیدی جانچ میں شدت آ گئی ہے کیونکہ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ میں فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد 37,000 سے تجاوز کر گئی ہے اور ساحلی علاقہ کھنڈرات میں بدل گیا ہے۔

واشنگٹن اپنے دیرینہ اتحادی کو 3.8 بلین ڈالر سالانہ فوجی امداد دیتا ہے۔ اگرچہ بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل شہریوں کے تحفظ اور غزہ میں مزید انسانی امداد کی اجازت دینے میں ناکام رہا تو وہ فوجی امداد پر شرائط عائد کریں گے لیکن انہوں نے مئی کی کھیپ میں تاخیر کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا ہے۔

حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے لیے بائیڈن کی حمایت ایک سیاسی ذمہ داری کے طور پر ابھری ہے، بالخصوص نوجوان ڈیموکریٹس کے درمیان کیونکہ وہ اس سال دوبارہ انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس سے ابتدائی انتخابات میں "غیر پابند” احتجاجی ووٹوں کی ایک لہر کو ہوا ملی اور یہ امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینی حامی مظاہروں کی وجہ بنی۔

اگرچہ امریکہ روسی حملے کا مقابلہ کرنے والے یوکرین کو بھیجی گئی فوجی امداد کی تفصیلی وضاحت اور تعداد کی معلومات فراہم کرتا ہے لیکن انتظامیہ نے اسرائیل کو بھیجے گئے امریکی ہتھیاروں اور گولہ بارود کی مکمل حد کے بارے میں چند ایک ہی تفصیلات ظاہر کی ہیں۔

ترسیل کا سراغ لگانا بھی مشکل ہے کیونکہ کچھ ہتھیار اسلحے کی فروخت کے حصے کے طور پر بھیجے جاتے ہیں جنہیں کانگریس نے برسوں پہلے منظور کیا تھا لیکن اب انہیں صرف پورا کیا جا رہا ہے۔

امریکی حکام میں سے ایک نے کہا، پینٹاگون کے پاس اپنے ذخیرے میں کافی تعداد میں ہتھیار موجود ہیں اور وہ ہتھیار بنانے والے امریکی صنعتی شراکت داروں سے رابطہ کر رہا ہے مثلاً بوئنگ کمپنی اور جنرل ڈائنامکس کیونکہ کمپنیاں مزید ہتھیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے