ماہ محرم الحرام

ماہ محرم الحرام
نوید مسعود ہاشمی

ماہ محرم الحرام اسلامی ماہ مح الحرام اسلامی سال کاپہلا مہینہ ہے،اس کے محترم،معززہونے کی بناء پراسے ”محر م الحرام“کہاجاتا ہے۔ نیز قرآن کریم میں بارہ مہینوں میں سے جن چار مہینوں کوخصوصی حرمت اور تقدس حاصل ہے، ان چارعظمت والے مہینوں میں سے بھی پہلا بالاتفاق محرم الحرام کامہینہ ہے۔
مسلم شریف کی ایک روایت میں ماہ محرم کو اس کے شرف کی وجہ سے ”شہراللہ“ یعنی اللہ کامہینہ کہا گیا ہے۔ محرم الحرام کی اسی بزرگی اوربرتری کی بناء پرحدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے:۔
رمضان کے بعدسب مہینوں سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد تہجدکی نماز افضل تر ہے (صحیح مسلم)

اس ماہ معظم کے ایام میں عاشوراء یعنی دسویں تاریخ کوخصوصی عظمت حاصل ہےاوراس کی بنیادکئی واقعات ہیں،جنہیں حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت سے قیامت کے وقوع کے دن تک بیان کیا جاتا ہے، تاریخ انسانی کے کئی بڑے اہم واقعات کواس دن کی طرف منسوب کیاجاتاہے۔یہ بھی یاد رہے کہ محرم کی یہ شان ازلی وابدی ہے، ماہ محرم الحرام اپنے اس امتیازمیں کسی زمان ومکاں کاپابند نہیںبلکہ خودزمان ومکان کسب شان میں محرم الحرام کے پابند ہیں۔ البتہ اس مہینے کے بارے میں سرکاردوعالم ﷺ سے دواعمال سند صحیح کے ساتھ ثابت ہیں جن کے کرنے کاترغیبی حکم دیا گیا ہے
اس ماہ کی دسویں تاریخ یعنی یوم عاشوراء کاروزہ رکھنا۔

اس بارے میں بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تواہل کتاب کواس دن کاروزہ رکھتے ہوئے پایا، جب اس کاسبب دریافت کیاگیاتوانہوں نے کہاکہ اس دن بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں فرعون کے ظلم سے نجات پائی تھی اور فرعون مع اپنے ساتھیوں کے دریائے نیل میں غرق ہوا، اس لیے بطور شکرانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کاروزہ رکھاتھا،حضورﷺ نے فرمایا: پھر ہم اس کے تم سے زیادہ حق دار اور حضرت موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔صحابی رسول حضرتِ سلمہ بن اکوع اور ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے”یومِ عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایاپیا نہیں ہے وہ آج کے دن روزہ رکھیں۔ اور جن لوگوں نے کھا پی لیا ہے وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں۔ وہ سارا دن روزہ کی حالت میں رہیں۔ بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہو گئی اور اس کی حیثیت نفل روزہ کی رہ گئی۔“ (بخاری248/1) (مسلم 340/1)

یوں تومحرم الحرام کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے،چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا (ترمذی 157/1)

امام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب میں ہر عبادت کا ثواب اور دنوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں اگر کوئی گناہ کرے، تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے ،امام جصاصؒ نے احکام القران میں فرمایا:اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے، اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچالے، توسال کے باقی مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے اسلئے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے (معارف القرآن 372-373/4، احکام القرآن163/3)

ماہ محرم الحرام کی اہمیت کا اندازہ ان عظیم واقعات سے بھی ہوتا ہے جومختلف انبیاء و رسل اور ان کی امتوں کے ساتھ پیش آئے۔ چنانچہ تاریخ و سیرکی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام اسی مہینے میں تولد ہوئے اور اسی مہینے میں دعوت توحید کی پاداش میں سیدنا خلیل اللہ کو آتش نمرود میں دھکیلا گیا تو وہ اللہ کے حکم سے نہ صرف ٹھنڈی ہو گئی‘ بلکہ سلامتی والی بن گئی۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی اور وہ غرق نیل ہو کر دنیا کے لیے سامان عبرت بن گیا اور آج بھی اس کی حنوط شدہ لاش مصر کے عجائب گھر میں درس نصیحت کے طور پر موجود ہے۔ ان کے علاوہ سیدنا یونس علیہ السلام کو اللہ نے مچھلی کے پیٹ سے نکالا‘ ادریس علیہ السلام مکان علیہا میں پہنچے اور ایوب علیہ السلام شفایاب ہوئے اورداؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی‘ سلیمان علیہ السلام کو عظیم سلطنت عطا ہوئی اور اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے کائنات تخلیق فرما کر عرش معلیٰ پر قرار پکڑا اور اسی مہینے میں قیامت کا زلزلہ برپا ہوگا اور یہ تمام کائنات انجام کار کے طور پر تباہ و برباد ہو جائے گی اور بعد ازاں روز محشر میں حساب و کتاب ہو گا۔ جنت و جہنم کو آراستہ کیا جائے گا اور جو جس کا حق دار ہو گا اسے وہاں پہنچا دیا جائے گا۔

قارئین کرام! مندرجہ بالاواقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مہینے کی کیا اہمیت ہے۔ قبل از اسلام بھی حرمت والے مہینوں کا بڑا احترام کیا جاتا تھا اور عرب جہالت کے باوجود ان مہینوں میں جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے باز رہتے تھے البتہ وہ ان مہینوں میں تاخیر و تقدیم کر کے اپنی مطلب برآری کر لیتے تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں وضاحت فرما کر پورے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمادیے اور حرمت والے مہینوں کی تعیین بھی فرما دی جو ابتدائے آفرینش سے اسی ترتیب سے تھے اور ماہ محرم الحرام حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔
اس مہینہ کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔احادیث مبارکہ میں بہت سارے ایسے اعمال بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل کی برکت سے رزق میں برکت ہوتی ہے ہمیں چاہیے کہ ایسے اعمال کو اپنا کر رزق میں برکت کے حق دار بنیں ۔
قارئین کرام! محرم الحرام کس قدر عظمت و برکت والامہینہ ہے اور اس مہینہ میں روزوں کی کیسی فضیلت ہے بالخصوص عاشورہ کے روزہ کی، اللہ پاک کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ ہمیں اس مہینہ کی برکت و فضیلت سے مالامال فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)

بشکریہ مدینہ مدینہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے