بنگلہ دیش : امن بحالی شروع ہونے کے باوجود ہندو کیوں بھارت بھاگنے لگے ؟

بنگلہ دیش حسینہ واجد کے بھاگ جانے کے تیسرے روز سے زندگی معمول پر آرہی ہے۔ مظاہرین سڑکوں سے ہٹ گئے ہیں تعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں۔ تاکہ طلبہ ہنگاموں اور مظاہروں سے واپس اپنے معمول کی تعلیمی سرگرمیوں کی طرف چلے جائیں۔

تاہم جمعرات کے روز سینکڑوں کی تعداد بنگلہ دیش سے ہندو بھارتی سرحد آکر جمع ہو گئے ہیں جو بھارت میں داخل ہونے کے خواہشمند ہیں۔ یہ بات بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل امیت کمار تیاگی نے ‘اے ایف پی ‘کو بتائی ہے۔

واضح رہے سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کے بنگلہ دیش سے فرار ہو کر آنے کے اگلے روز بھارتی وزیر خارجہ جے شینکر نے بھارتی لوک سبھا کے سامنے اپنے باضابطہ بیان میں کہا’ بنگلہ دیش میں حالات اس قدر خراب نہیں ہیں کہ اپنے شہریوں کو وہاں سے فوری نکلنے کے لیے کہیں۔’۔

یاد رہے بنگلہ دیش میں انیس ہزار بھارتی مو جود ہیں جن میں سے نو ہزار بھارتی طلبہ ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش میں ہندو آبادی بھارتی میڈیا کے مطابق ایک کروڑ سوا کروڑ تک ہے۔

بھارت کی خواہش رہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیاں ہندو آبادی کو ایک جگہ پر بسا دیا جائے۔ اب اچانک بھارتی بی ایس کے ذمہ دار افسر کی طرف سے یہ اطلاع ملنے پر کہ سینکڑوں ہندووں کے بھارت داخل ہونے کی کوشش کے سلسلے میں سرحد پر جمع ہو گئے ہیں۔ ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ ڈی ائی جی بارڈر سیکورٹی فورس کے مطابق دو سو سے زائد بنگلہ دیشی ہندو ریاست مغربی بنگال کی سرحد کی نزدیک جمع ہوئے ہیں۔ جبکہ 600 کے قریب ہندو جلپائگوری ضلع کی طرف بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ‘ نو مین لینڈ ‘ پر جمع ہیں۔ ڈی جی آئی کے بقول اس علاقے میں کوئی سرحدی باڑ بھی نہیں ہے۔ ‘

بی ایس حکام کے مطابق بنگالی ہندوؤ ں کو روکنے اور منتشر کرنے کے لیے فورس نے ہوائی فائرنگ کی ہے۔

حسینہ واجد کے پیر کے روز بھاگ کر بھارت میں پناہ لینے کے بعد اعلی بھارتی سیکورٹی حکام کی میٹنگ کے بعد پہلی بار یہ خبریں بھی سامنے آنے لگی ہیں کہ بنگلہ دیش میں کئی ہندو مندروں کو بھی مظاہرین نے نشانہ بنایا ہے۔ بنگالی ہندو شروع سے حسینہ واجد کے کٹر حامی ہیں۔ جس طرح کی صورت حال بنگلہ دیش میں پیدا ہوئی ہے اس میں ہندو اور مسلم ووٹ کی تقسیم مزید بڑھ جائے سکتی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ہندو،بدھ اور مسیحی کمیونٹی کی مشترکہ کونسل نے اس ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ دس مندروں پر حملے کیے گئے ہیں۔ ایک ہسپتال کے ذمہ دار نے ہنگاموں کے دوران بنگلہ دیش کے جنوبی ضلع میں لائے گئے ایک زخمی ہندو کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی ہے۔ حالیہ ہنگاموں کے دوران بنگالی ہندوؤں نے وزیر اعظم کا ساتھ دیا اور مظاہرین کے خلاف بھی سڑکوں پر نکلتے رہے تھے۔ کیا یہ حسینہ واجد کے ہی وفادار ہندوؤں کے جتھے ہی سرحد پر آنے لگے ہیں ۔ اس بارے میں ابھی کوئی تصدیق نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے