جشنِ آزادی نہیں، بلکہ شکرِ آزادی

جشنِ آزادی نہیں، بلکہ شکرِ آزادی

اگست کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، 14یوم آزادی کی مناسبت سے ملک بھر میں سرکاری اور سیاسی سطح کے علاوہ ہر قسم کی عوامی سطح پربھی جشنِ آزادی منانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں یقینا جس کا خرچہ اربوں روپے تک جائیگا۔

اس میں شک نہیں کہ 14اگست کا دن اس ملک کی تاریخ کا بنیادی یادگار دن ہے اور جو بھی ایسا یادگاردن ہوتا ہے تو اس دن آنے والی نسلوں کو حصول آزادی کے لئے جو قربانیاں دی گئیں جو مشکلات پیش آئیں اور جو قیمت ادا کی گئی ، سے آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی اس آزادی کو ایک عام سی بات نہ سمجھیں ان کے علم میں ہو کہ اس کے لئے کتنی جانیں دی گئی ؟ کتنے لوگ قیدوبند کی صوبتوں سے گزرے؟ او ر کتنے لوگوں کے وجود خاک میں ملے؟ تب جا کر کچھ لوگوں کو آزادی نصیب ہوئی۔ یہ یادگاری ایک تو تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہے اور دوسرا اس لیے بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ جس رب تعالیٰ نے اس قدر بڑا انعام دیا ہے اس کا شکر اداء کرنے جذبہ پروان چڑھے کہ یہی ایک مسلم اور مسلم قوم کی شان ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ محض جشن، تو ایک فضول سی اچھل کود، تفریح اور تماشے کانام ہے، ایک مسلم قوم آزادی کا ایسا جشن نہیں منایا کرتی۔ گزشتہ ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے، آپ کو اسلامی تاریخ کے ایسے ایسے روشن اور تابناک کارنامے نظر آئیں گے جن پر انسانی عقل حیران نظر آتی ہے۔ ان محیر العقول کارناموں کی ابتدا ہجرت مدینہ سے ہوتی ہے-کفار کے سفاکی کی حدوں کو پار کرتے مظالم کا شکار کم مایہ و بے سرمایہ مسلمان نبوت کے دسویں سال اللہ کے حکم سے مدینہ ہجرت کرتے ہیں،وہاں کے رہائشی انکا فقید المثال استقبال کرتے ہیں،اپنے مال و دولت ان کے سامنے ڈھیر کردیتے ہیں اور بدر کے دن اپنی وفا کی اعلی مثال پیش کرتے ہیں۔ پھر سب نے دیکھا کہ اس ناقابل یقین فتح کے بعد مسلمانوں نے”جشن” نہیں منایا تھا بلکہ اس ذات باری کے سامنے”شکر” کی ادائیگی میں سجدہ ریز ہوگئے تھے جس کی اعانت سے یہ عظیم الشان فتح نصیب ہوئی

مگر ہمارے ہاں المیہ یہ ہورہا ہے کہ ہم نے "فتح” کے بعد "شکر” کے بجائے”جشن” منانا شروع کردیا ہے۔

عزیز پاکستانیو! 14 اگست "جشن "منانے کا دن نہیں،بلکہ "شکر” کی ادائیگی کا دن ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ "قوم لایشکرون” کی فہرست میں شامل ہوکر”ان بطش ربک لشدید” کی پکڑ میں آجائیں اور اس ناشکری اور بے عملی پر صفحہ ہستی سے ہی مٹادئیے جائیں اور پچھلی قوموں کی طرح آنے والی قوموں کے لیے نشان عبرت بنادیئے جائیں! جو قوم رب کی نعمتوں کو یاد رکھتی ہے اور قدر کرتی ہے تو ہی رب تعالیٰ اس پر اپنے انعامات کا سلسلہ مزید کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے