امارت اسلامیہ افغانستان کی معاشی پالیسی کے روشن پہلو!۔

خزیمہ یاسین

عموما امریکی بلاک کا حصہ رہنے والے اداروں اور ممالک کی طرف سے افغانستان کی معیشت کے بارے میں مختلف تبصرے نشر ہوتے رہتے ہیں۔
ایسے تبصروں کا اکثر مقصد افغان معیشت کے بارے میں منفیت اور مایوسی پھیلانا ہوتا ہے، تاکہ عالمی سطح پر افغانستان کا اسلامی نظام میں ترقی کرتا ہوا منظرنامہ نظروں سے اوجھل رہے۔ ایسے تبصروں میں افغانستان کی مجوعی طور پر غربت، عوامی سطح پر معاشی تنگ دستیاں اور بھوک و افلاس کے ایسے مناظر بتائے جاتے ہیں، جن کا افغانستان کے زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جب کہ ایسے غیرموجود منظرناموں کی پیداوار کا ذمہ دار امارت اسلامیہ کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
حالانکہ امارت اسلامیہ وہ نظام ہے، جس نے اپنی معیشت کے سہارے کے لیے امریکی انخلا کے بعد اپنے قیام سے اب تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے اور ملک سے کسی طرح کا کوئی قرض حاصل نہیں کیا ہے۔ اس میں مزید اطمینان کا سلسلہ یہ ہے کہ امارت اسلامیہ نے ہر طرح کے تعصبات اور خصوصا امریکا و اقوامِ متحدہ کی طرف سے لگائی گئی معاشی پابندیوں کے باوجود جمہوری حکومت کی جانب سے وراثت میں ملے ہوئے قرضے ادا کرنے پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
اس حوالے سے حالیہ عرصے میں “افغانستان الیکٹرک کمپنی” کے حکام کے مطابق افغانستان نے بجلی کی مَد میں پہلی بار چار ہمسایہ ممالک ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ایران کے قرضوں سے مکمل طور پر نجات حاصل کر لی ہے۔ افغانستان الیکٹرک کمپنی کے ترجمان حکمت اللہ میوندی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ امارت اسلامیہ کو اپنے قیام کے بعد ایک بہت بڑا مسئلہ بجلی کے شعبے میں چار ہمسایہ ممالک ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ایران کے قرضوں کا درپیش تھا، جو سابقہ اور امریکا کی منظورِ نظر اشرف غنی انتظامیہ کے ذمے واجب الادا تھے۔ افغان بینکنگ سسٹم پر امریکا کی طرف سے لگائی گئی متعصبانہ سخت پابندیوں کے باوجود امارت اسلامیہ نے مذکورہ ممالک کے قرضوں کی کل رقم 627 ملین ڈالر مکمل طور پر ادا کر دی ہے۔
یہ امارت اسلامیہ کی معیشت کا روشن پہلو ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں صرف بقیہ قرضوں کی ادائی ہی نہیں، بلکہ مذکورہ ممالک کو مزید بجلی کی درآمد کے لیے پیشگی ادائیاں بھی کی گئی ہیں۔
برسبیل تذکرہ اگرچہ ایک طرف افغانستان کی 80 فیصد بجلی ہمسایہ ممالک سے درآمد کی جاتی ہے، تاہم وزارتِ آب و برق اپنی ذمہ داری کے طور پر مقامی بجلی پیدا کرنے کے لیے اندرونی وسائل پر بھی کام کر رہی ہے۔ تخمینے کے مطابق افغانستان 900 سے 950 میگاواٹ تک بجلی اپنے اندرونی وسائل سے پیدا کر سکتا ہے، البتہ موجود صلاحیت کے مطابق 5 سال کے عرصے میں افغانستان مقامی وسائل سے 710 میگاواٹ بجلی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جب کہ افغانستان الیکٹرک کمپنی کے ترجمان حکمت اللہ میوندی کے مطابق افغانستان کو 1500 سے 2000 میگاواٹ تک بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
امارت اسلامیہ نے اپنی قرض سے خلاصی کی پالیسی کے تحت قرض کی حالیہ ترین قسط 2.7 بلین افغانی کی ادا کی ہے۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق “امارت اسلامیہ کی قیادت کے فیصلے کے مطابق وزارت خزانہ نے اشرف غنی انتظامیہ کی جانب سے متعدد غیرملکی اداروں کے لیے واجب الادا 2.7 بلین افغانی کا قرض ادا کر دیا ہے۔” وزارتِ خزانہ نے تفصیل واضح کرتے ہوئے کہا کہ “ورلڈ بینک کو تقریباً 910 ملین افغانی ادا کیے گئے ہیں، جب کہ تقریباً 1.9 بلین افغانی ایشیائی ترقیاتی بینک کو ادا کیے گئے ہیں۔”۔
امارت اسلامیہ نے افغانستان کو قرضوں کے جال سے خلاصی دینے کے لیے اپنے بجٹ میں ایک مخصوص فنڈ قرضوں کی ادائی کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ یہ امارت اسلامیہ کی معاشی ترقی کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے قرضوں کی ادائی کے لیے کسی طرح کا کوئی قرض بھی نہیں لے رہی اور مزید یہ کہ ان واجب الادا قرضوں کے لیے مختص بجٹ پورا کرنے کے لیے اپنے عوام پر بھی کسی طرح کا کوئی ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔ جب کہ دیگر ترقی پذیر ممالک میں ایک عمومی رویّہ یہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ قرضے ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام پر بھی ٹیکسوں کا ایک گورکھ دھندہ مسلط کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے، جو ملک کو مزید کنگال بناتا ہے۔ اس سے ملک کی معیشت جام ہوتی اور عوام کی قوتِ خرید پر گہرائی کی حد تک بُرا اثر مرتب ہوتا ہے۔
دوسری طرف جغرافیائی طور پر ہر طرف سے خشکی میں گھرے ہوئے افغانستان کی یہ کامیابیاں اِن حالات کے باجوود ہیں کہ ابھی تک چند ممالک کے علاوہ اکثر دنیا نے امارت اسلامیہ کو قبول نہیں کیا ہے۔ امارت اسلامیہ کی ان کامیابیوں کا اعتراف ہمیشہ امارت اسلامیہ کے لیے متنازع پروپیگنڈہ کرنے والے عالمی نشریاتی ادارے بھی کر رہے ہیں۔ جب کہ “وائس آف امریکا” نے اپنے اعتراف میں یہ بات کہی ہے کہ “نئی طالبان حکومت نے سخت بینکنگ اور اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے لگ بھگ ایک سال سے (مختلف اداروں اور ممالک کے لیے واجب الادا قرضوں کی) بَر وقت ادائیگیوں کی کوشش کی ہے۔
وائس آف امریکا کی اس وضاحت کے بعد امارت اسلامیہ کی معاشی پالیسی کے مثبت پہلو مزید نِکھر کر سامنے آ رہے ہیں کہ “اشرف غنی حکومت میں بننے والے سالانہ بجٹ کا نصف سے زیادہ حصہ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے امدادی فنڈ میں ملنے والی رقم سے تیار کیا جاتا تھا۔”۔
جب کہ امارت اسلامیہ کے نظام میں مسلسل تین سال سے تمام بجٹ خودانحصار پالیسی کی بنیاد پر عالمی اداروں سے قرض لیے اور اپنے عوام پر ٹیکس لگائے بغیر تیار کیا جا رہا ہے۔ جب کہ امریکا کی طرف سے ظالمانہ روش یہ ہے کہ امریکا نے افغانستان کے بیرون ملک موجود 9ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ اس کے باجوود عالمی بینک کی رپورٹ یہ ہے کہ “افغان کرنسی دوسروں، خصوصا اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں بدستور مستحکم رہی ہے۔”۔

بشکریہ الامارہ اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے