لا پتہ افراد کا مسئلہ اور ریاست و عوام کی ذمہ داریاں،مفتی تقی عثمانی صاحب کی اہم گفتگو

"لا پتہ افراد کا مسئلہ اور ریاست و عوام کی ذمہ داریاں”

——– مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی اہم گفتگو

ابومعاذ راشد حسین-کراچی

آج مورخہ 12 جنوری 2024 کو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے جمعہ کے بیان میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر مفصل انداز میں بڑی فکر انگیز گفتگو فرمائی اور اسے ’’اجتماعی سطح پر ظلم‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ظلم کا نتیجہ کبھی صلاح و فلاح نہیں ہو سکتا۔‘‘۔
فرمایا کہ ’’ہمارے ملک میں کسی انسان کی کوئی قدرو قیمت نہیں رہی، کسی بھی شخص کو آکر پکڑ لیا جاتا ہے،غائب کردیا جاتا ہے، وہ لاپتہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کے ماں باپ کو اس کے بہن بھائیوں کوپتہ نہیں ہوتا کہ اس کو کیوں گرفتار کیا گیا، اسے کیوں پکڑا گیا؟ اسے ہم سے کیوں دور کیا گیا؟
’’اگر کسی شخص کو کسی جرم میں گرفتار جائے تو اس میں شریعت کا قاعدہ بھی یہ ہے اور قانون کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ اس کے اوپر مقدمہ چلایا جائے،اس کے بارے میں تفتیش کی جائے، علی الاعلان اس پر مقدمہ چلا کر یہ ثابت کیا جائے کہ اس نے فلاں جرم کیا ہے اور اس جرم کی وجہ سے اسے سزا دینی ہے، لیکن مقدمہ چلائے بغیر اور کسی کا جرم ثابت کیے بغیر اسے اٹھا لینا،اور اٹھا کر بند کردینا اور اس پر ظلم و ستم کرنا، اس پر تشدد کرنا، یہ نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ اس حدیث کے خلاف ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ ’’پاکستان کے متعدد علاقوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سالہا سال سے پھنسا ہوا ہے، بے شمار افراد ہیں جو لاپتہ ہیں، جن کا پتہ ہی نہیں کہ کہاں ہیں؟ کس حالت میں ہیں؟
’’ہر شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے کہ اگر اس کا بیٹا، اس کا بھائی، اس کا باپ اس طرح گم شدہ ہو جائے کہ اس کا پتہ ہی نہ چلے کہ کہاں گیا؟ زندہ ہے یا مردہ؟ تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟‘‘۔
’’لیکن یہ ایک عام چلن ہوتا جارہا ہے، خاص طور پر پاکستان کے بعض علاقوں میں یہ ظم ہورہا ہے۔اس ظلم کے تدارک کیلئے کوئی آواز اٹھاتا ہے تو وہ بھی اس ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔….‘‘۔
’’ہم کہاں چلے گئے؟ ہم آپ ﷺ کے ارشادات سے کتنا دور چلے گئیے؟ کہ آپ ﷺ تو فرمارہے ہیں کہ مومن مومن کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘۔
’’ٹھیک ہے اگر کسی شخص نے کوئی گناہ کیا ہے کسی جرم کا انتخاب کیا ہے تو بے شک شریعت کے دائرے میں رہ کر قانون کے دائرے میں رہ کر اس پر مقدمہ چلا کر اس کو سزا دینے کا حق حاصل ہے، لیکن اچانک کوئی شخص کسی دوسرے سے کہہ دے کہ تم چور ہو اور چور ہونے کی وجہ سے ہم تمہارے ہاتھ کاٹیں گے یا کیونکہ چور ہو لہذا تمہیں گرفتار کریں گے۔ اس کا کوئی جواز نہ شریعت میں ہے نہ موجودہ قانون کے اندر ہے۔‘‘۔
نیز حضرت والا نے بڑی دردمندی سے فرمایا کہ:’’حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اتنا الجھ گیا ہے کہ یہ سمجھنا بھی آسان نہیں ہے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر؟ کیونکہ ایسی ایسی تحریکیں ہمارے ملک میں چل گئی ہیں جو بعض اوقات اسلام کے نام پر، بعض اوقات قومیت کے نام پر ملک کو ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں اور ہمارے دشمنوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہیں۔۔‘‘۔
پھر حضرت والا نے فرمایا کہ پاکستان کے دو جرم یہ ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ملک طرح طرح کی سازشوں کا شکار ہے۔

۔(1) لاالہ کی ببنیاد پر قائم ہونا۔(2) ایٹمی طاقت ہونا۔ فرمایا کہ ’’ہمیں آپس میں لڑانے کے منصوبے تیار کیے جارہے ہیں، کبھی قومیت کے نام پر کبھی اسلام کے نام پر‘‘…….۔
’’اب ایک طرف یہ لوگ ہیں جو اپنے حقوق کے نام پر یا اسلام کے نام پر کھڑے ہوتے ہیں اور ملک کو کمزور کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو -کسی امتیاز کے بغیر- جس پر ذرا شبہ ہوگیا کہ یہ ان دو پاکستان دشمن تحریکوں کا حامی ہے، اسے اٹھا کر لے گئے اور اسے ایسی جگہ پہنچا دیا جہاں کسی دوسرے کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا کہہ کہاں لے گئے۔‘‘۔
’’ہمارا پورا معاشرہ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی ظلم کا شکار ہے اور ہم ظلم کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔جب ظلم ہوگا تو ظلم کا نتیجہ کبھی صلاح و فلاح نہیں ہو سکتا۔‘‘۔
’’خد اکیلئے اس بات کو ہم سمجھٰں کہ ہمارے معاشرے میں جو ظلم کی کارروائیں ہورہی ہیں، ان کارروائیوں کو ہم بند کریں، ایک دوسرے کو سمجھانے کی کوشش کریں افہام و تفھیم سے، محبت سے پیار سے لوگوں کو اس ظلم سے باز رہنے کی تلقین کریں۔اور جو بات اخالص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ بے اثر نہیں ہوتی۔‘‘۔
اس کے بعد حضرت والا نے علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی صاحب ؒ کی ایک مشہور بات، یعنی ’’حق بات حق نیت اور حق طریقے سے‘‘ کہنے کی بڑی دلنشیں تشریح فرمائی اور آخر میں فرمایا کہ: ’’حق بات، حق طریقے سے، حق نیت سے کہی جائے تو کبھی بے اثر نہیں ہوتی۔‘‘۔
آخر میں حضرت والا نے بڑی دلسوزی کے ساتھ فرمایا: ’’میرے بھائیو !گزارش یہ ہے کہ یہ جو میں معاشرے کے مختلف حالات بیان کر رہا ہوں ،جن کا ہم خود روزانہ رونا روتے ہیں، اس کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں جس جگہ کوئی حق بات کہنے کی ضرورت پیش آئے، کچھ لوگوں کو فہمائش کرنے کی، سمجھانے کی، اگر کہیں ظلم ہو رہا ہے تو ظلم کو ختم کرنے کے لیے حق بات، حق طریقے سے، حق نیت سے پہنچانے میں کوتاہی نہ کریں۔اس طرح کم از کم انشاءاللہ ہم اللہ تعالی کے ہاں مسئول نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہم سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ظلم ہو رہا تھا اور تم نے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمارے معاشرے کو ظلم سے آزاد فرما دے اور حق و انصاف کا بول بالا فرمائے۔‘‘ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے