یحیی السنوار کی لکھی ہوئی کتب اور تحریریں

اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یحی السنوار کو حماس کے نئے سربراہ مقرر کیے گئے۔ گذشتہ دن جارح اسرائیلی افواج کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ حماس نے ان کی شہادت کی تصدیق کر دی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
ماضی میں اسرائیلی فورسز نے اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے نئے سربراہ یحییٰ السنوار کو غزہ سے متعدد بار گرفتار کیا اور چار بار عمر قید کی سزا سنائی، تاہم انہیں 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا کر دیا گیا۔ اس عرصے کے دوران یحیی السنوار نے اسرائیلی جیلوں کے اندر کچھ کتابیں لکھیں اور کچھ ترجمہ کیں، جو ان کے طرز فکر کو ظاہر کرتی ہیں۔ جیل میں 23 سال کی عمر میں یحیی السنوار نے عبرانی زبان سیکھی، انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت سیکھنے، مطالعہ کرنے اور لکھنے میں صرف کیا۔ اسرائیلی جیل میں ہی وہ اسرائیلی سوچ و فکر سے متعارف ہوئے۔
یحیی السنوار 1962 میں خان یونس ہیڈکوارٹر غزہ میں پیدا ہوئے، عربی زبان میں ڈگری حاصل کی، 1988 میں قابض اسرائیلی افواج نے گرفتار کیا۔ مختلف اوقات میں گرفتاری میں چار بار عمر قید کی سزا سنائی۔ 2011 میں قابض اسرائیل اور فلسطینی حکومت کے درمیان “وفاء الأحرار” کے نام سے قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں رہا ہوئے۔ ایام قید میں انہوں نے پانچ ایسی کتابیں لکھیں اور ترجمہ کیں جو اسرائیل کے بارے میں ان کے فکر و خیالات کو ظاہر کرتی ہیں۔
۔1۔ الشاباک بين الأشلاء: سنوار نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کیا۔ اس کتاب کا اصل مصنف ’’شباک‘‘ کے ڈائریکٹر تھے۔ اس کتاب میں اسرائیل کی داخلی سلامتی ایجنسی کے کردار کو بیان کیا گیا ہے، جسے شاباک کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی بنیاد اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین نے رکھی تھی۔
کتاب میں شاباک کے کام کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ تنظیم اسرائیلی وزیر اعظم کے احکامات پر عمل کرتی ہے۔ اس کی سرکاری ذمہ داری سازشوں اور بغاوتوں سے ریاست کو بچانا اور داخلی سلامتی کا تحفظ کرنا ہے۔

۔2۔ الأحزاب الإسرائيلية (اسرائیلی جماعتیں)
یہ کتاب 1992 میں شائع ہوئی تھی اور اسے سنوار نے عربی میں ترجمہ کیا۔ کتاب 1990 کی دہائی میں اسرائیل کی سیاسی جماعتوں، ان کے پروگراموں اور ان کی حکمت عملیوں سے بحث کرتی ہے۔ ان کتابوں میں سنوار کی دل چسپی کی وجہ اسرائیل کی داخلی سیاست اور فلسطین اسرائیل جنگ کے آغاز میں سیاسی جماعتوں کے فیصلوں کے کردار سے متعلق معلومات کے حصول تھی۔

۔3۔ شوک القرنفل: (ناول)
شوک القرنفل یا “لونگ کا کانٹا” کے نام سے یہ ناول سنوار کی اپنی تحریر ہے، جو انہوں نے 2004 میں لکھی۔ اس کتاب میں 30 ابواب میں 1967 سے فلسطینی مزاحمت کی داستان بیان کی گئی ہے، جس میں انہوں نے فلسطینی مسئلے کے کئی اہم اور بنیادی تفصیلات کو تاریخی طور پر بیان کیا ہے۔
یہ ناول قارئین کو فلسطین کی گلی کوچوں میں لے جاتا ہے، مزاحمت کی تعریف کرتا اور مقامی لوگوں کی زندگی کے تاریک پہلوؤں جیسے غربت اور سہولیات کی عدم دستیابی پر روشنی ڈالتا ہے۔

۔4۔ المجد: یہ کتاب 2010 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی شاباک کے کام کرنے اور اس کی حکمت عملیوں پر لکھی گئی ہے کہ یہ تنظیم کس طرح معلومات جمع کرتی ہے، جاسوسوں اور ایجنٹوں کو کس طرح بھرتی کرتی ہے، اور تفتیش کے دوران جسمانی و ذہنی طور پر کن وحشیانہ طریقوں کا استعمال کرتی ہے۔ سنوار نے اسرائیل کی ایک جیل میں قید کے دوران کہا: “کہ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں تنظیم کی حساسیت اور فلسطین اسرائیل تنازع میں اس کی کارروائیوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس تنظیم کے مستقبل کے بارے میں جتنی زیادہ معلومات حاصل کی جا سکیں وہ اس میں جمع کر دی گئی ہیں، اس کتاب کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔

۔5۔ حماس۔ التجربة والخطأ: یعنی “حماس تجربہ اور غلطی”
یہ حماس کے شہید سربراہ یحییٰ السنوار کی ایک اور تحریر ہے، جس میں اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) اور اس کی ترقیات پر گفتگو کی گئی ہے اور اسرائیل کے ساتھ تصادم میں اس جہادی تنظیم جس کے وہ خود بھی ایک اہم رکن ہیں کے مستقبل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یحییٰ السنوار حماس کے شہید رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اس تنظیم کے سربراہ بنے تھے۔ وہ ایک مضبوط فوجی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ اسرائیل انہیں گزشتہ سال 7 اکتوبر کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر تلاش کر رہا تھا، لیکن اس حملے اور اس کے بعد کے دس ماہ گزرنے کے باوجود بھی ان کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے