امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اسرائیل کو 500 پونڈ وزنی بموں کی ترسیل دوبارہ شروع کرے گا تاہم 2000 پونڈ وزنی بموں کی ترسیل بدستور معطل رکھی جائے گی۔ یہ بات ایک امریکی ذمے دار نے بدھ کے روز اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی۔
ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق مذکورہ ذمے دار کا کہنا تھا کہ "ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ ہماری تشویش دو ہزار پونڈ وزنی بموں کے استعمال پر ہے بالخصوص رفح میں اسرائیلی آپریشن میں ، جس کے بارے انہوں نے بتایا کہ آپریشن اختتام کے قریب ہے”۔
دو ہزار پونڈ وزنی ایک بم کنکریٹ اور دھات کو پھاڑ سکتا ہے اور اس سے نصف قطر وسیع دھماکا ہوتا ہے۔
دوسری جانب با خبر ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ 500 پونڈ وزنی بموں کو روانہ کر دے گا تاہم بڑے بموں کو روکے رہے گا۔
یاد رہے کہ امریکا نے رواں سال مئی میں 2000 اور 500 پونڈ وزنی بموں کی کھیپ کی ترسیل روک دی تھی۔ اس کی وجہ جنگ کے دوران میں غزہ میں ان بموں کی ممکنہ اثر پذیری تھی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جون میں واشنگٹن پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ہتھیاروں کی ترسیل روک لی ہے۔ انہوں نے امریکی ذمے داران سے اپیل کی تھی کہ وہ اس معاملے کو حل کریں البتہ امریکی صدر بائیڈن کے معاونین نے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے گذشتہ ماہ بتایا تھا کہ اکتوبر 2023 میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے جون 2024 کے اختتام تک امریکا نے اسرائیل کو جو ہتھیار بھیجے ان میں دو ہزار پونڈ وزنی 14 ہزار MK-84 بموں ، 500 پونڈ وزنی 6500 بموں ، فضا سے زمین میں مار کرنے والے 3 ہزار Helfire گائیڈڈ میزائلوں ، بنکر کو دھماکے سے اڑانے والے 1 ہزار بموں اور فضا سے گرائے جانے والے چھوٹے قطر کے 2600 بموں کے علاوہ دیگر گولہ بارود شامل ہے۔