ورلڈ بینک کے متبادل آپشن پر غور کرنے کی ضرورت

تحریر: ھیواد مل افغان

اگرچہ عالمی بینک بین الاقوامی سطح پر سب سے اہم مالیاتی اداروں میں سے ایک ہے، جو بظاہر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں کے نفاذ اور فنانسنگ میں مدد کرتا ہے، یہ ادارہ بہت سی اقتصادی کوششوں اور کامیابیوں کی وجہ سے سراہا جاتا ہے تاہم اس بینک کے منفی پہلو بھی نمایاں ہیں جن میں سب سے بڑا ممالک کے درمیان معاشی عدم توازن ہے۔
عالمی بینک کے قرضے ان ممالک کے لیے آسان ہیں جن کے معاشی حالات بہتر ہیں اور وہ اس بینک کے قرضے وقت پر ادا کر سکتے ہیں۔ غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک کو عالمی بینک سے قرض لینے کی ضرورت ہمیشہ سب سے زیادہ ہوتی ہے لیکن اس بینک سے قرضے کے حصول کی شرائط بہت مشکل ہیں اور قرض لینے والے ممالک اس بینک کی سخت شرائط پر قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
عالمی بینک کے قرضوں تک رسائی کی پابندی بھی ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے درمیان اقتصادی خلیج میں اضافے کا سبب بنتی ہے، کیونکہ ورلڈ بینک کے قرضے اکثر مشکل سیاسی اور معاشی حالات سے جڑے ہوتے ہیں اس لیے پسماندہ ممالک ان شرائط کی بنیاد پر ورلڈ بینک کی شرائط کو اپنے اوپر لاگو کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن یہ شرائط اکثر عوام کی طرف سے مسترد کر دی جاتی ہیں، جس کا نتیجہ غریب ممالک کی غربت کی صورت میں نکلتا ہے، کیونکہ قرض دار ممالک سے بینک کا مطالبہ نجکاری اور آزاد منڈی کے خراب حالات پر مبنی ہوتا ہے، جس پر عملدرآمد سے اکثر مائیکرو اکنامک صنعتوں کو نقصان پہنچتا ہے، نہ صرف مندرجہ بالا نقصانات، بلکہ عالمی بینک کے بڑے منصوبے بھی صنعتی پارکوں کو ماحولیاتی تبدیلی اور آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے منصوبوں پر عمل درآمد اکثر جنگلات کی کٹائی اور آبی وسائل میں کمی کا باعث بنتا ہے، جس کی پسماندہ ممالک کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ خشک سالی اور سیلابوں کی وجہ سے مختلف ممالک میں رہنے والے اپنے علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں۔ مندرجہ بالا تضادات کے علاوہ ورلڈ بینک کے زیادہ تر منصوبے عوام کی مرضی کے بغیر لاگو ہوتے ہیں۔
دوسری جانب ورلڈ بینک کے قرضے اکثر مالی دباؤ کا ذریعہ بن جاتے ہیں، کیونکہ یہ قرضے منافع اور بلند شرح سود سے جڑے ہوتے ہیں، جو کسی ملک کی معیشت کے مزید جمود کا باعث بنتے ہیں۔
عالمی بینک کی کرنسی ڈالر ہے، جو اس کی قدر کو مستحکم رکھنے کی ایک اہم وجہ بھی ہے۔
اگر دنیا اس معاشی جال سے نکلنا چاہتی ہے تو اسے عالمی بینک کے متبادل پر غور کرنا ہوگا اور یہ تب ممکن ہے کہ جب وسطی اور مشرقی ایشیا کے ممالک مل کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں ان ممالک کو عالمی بینک کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسا معاشی نظام بنانا چاہیے جس پر امریکہ کی گرفت نہ ہو، جس سے اس کی پابندیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
بینک تو پیسوں کی حفاظت کے محفوظ خزانے ہیں، اقتصادی پابندیاں لگانے کے وہ غیر محفوظ ادارے نہیں جو بین الاقوامی سرمائے کو منجمد کرتے ہیں۔
ان اقدامات سے اس بینک کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ اس پر لوگوں کا اعتماد کم ہوتا جاتا ہے اور اس وجہ سے آہستہ آہستہ عالمی بینک اپنی قانونی حیثیت کھو دیتا ہے۔
دوسری طرف ورلڈ بینک کوئی عدالت یا پراسیکیوٹر کا دفتر نہیں ہے جو ممالک کے سرمائے کو منجمد کر دے، ان حالات کے پیش نظر بہتر یہ ہے کہ ورلڈ بینک کو کچھ عرصے کے لیے ایشیائی اور یورپی ممالک میں منتقل کر دیا جائے، اور اس کی مالیاتی اکائی ڈالر کے بغیر کوئی اور کرنسی منتخب کریں۔ اس صورت حال میں عالمی برادری پرامن رہ سکے گی

بشکریہ الامارہ اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے