اسماعیل ہنیہ کی جدوجہد، شہادت اور امت مسلمہ کےلیے پیغام

فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی راہ نما اسماعیل ہنیہ کو گذشتہ رات ایران کے شہر تہران میں ان کے ایک محافظ سمیت شہید کر دیا گیا۔ وہ ایران کے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے جہاں ان پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا۔ اسماعیل ہنیہ نے مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ انہوں نے 1980 کی دہائی سے تحریک حماس کے ایک اہم رکن کے طور پر اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور اس طویل اور کانٹے دار راستے میں بہت قربانیاں دیں۔ 1989 میں اسرائیل نے فلسطینی تحریک کو دبانے کےلیے اسماعیل ہنیہ کو تین سال تک قید میں رکھا لیکن قید و بند نے ان کی جدوجہد کو متاثر نہیں کیا۔ وہ صبر و استقامت کی مثال بن گئے اور اپنے ساتھی جنگجوؤں کو مزاحمت کی ترغیب دی۔ 2006 میں جب حماس نے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں تو محمود عباس نے اسماعیل ہنیہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔
جب حماس نے فتح پارٹی کو غزہ سے بے دخل کیا تو اسماعیل ہنیہ کو اس عہدے سے برطرف کردیا گیا لیکن اس برطرفی کی وجہ سے بھی ان کی جدوجہد رکی نہیں، وہ مزید پرعزم ہوگئے۔ 2017 میں اسماعیل ہنیہ کو حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ کے طور پر مقرر کیا گیا۔ اس طرح انہوں نے جہادی راہ نما کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانا شروع کیں۔
اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ نے اسے 2018 میں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا، تاہم اسماعیل ہنیہ قطر میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔ جذبہ حریت سے سرشار اس شخص نے اقصیٰ کی آزادی کے تصور کو حقیقت میں بدلنے کو اپنا نصب العین قرار دیا۔
اسماعیل ہنیہ نے زندگی کے 66 سال غربت، جیل، جلاوطنی اور سخت جدوجہد میں گزارے۔ ہانیہ کی مذہب اور آزادی سے محبت نے اسے شہادت تک اس کانٹے دار راستے سے جدا نہیں کیا۔ اسماعیل ہنیہ کے خاندان نے ایک سال میں 22 افراد کی قربانی دی اور آج اسماعیل ہنیہ کو اپنے شہید خاندان کے شہدا کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔
انہوں نے یوم شہادت تک تکالیف، قید و بند، جلاوطنی، مال و اولاد کی قربانیاں برداشت کیں، لیکن آج استقامت اور حوصلے کے اس پہاڑ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی۔ عصر حاضر کے ایک بہادر مجاہد سے مسلمان محروم ہو گئے۔ لیکن ان کی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال بن گئی کہ اسلامی اقدار اور آزادی وطن کےلیے کیسے جدوجہد کی جاتی ہے۔ تاریخ ایسی عظیم المرتبت شخصیات کو کبھی نہیں بھولتی۔
اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ کے محافظ اسماعیل ہنیہ کی شہادت قبول فرمائے اور اس مقدس شہادت کو امت مسلمہ کے اتحاد، بیداری اور مغرب کے طلسم سے نجات کے لیے مشعل راہ بنائے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت اگرچہ بہت بڑا نقصان ہے، لیکن ایسی عظیم شخصیات کی شہادت کے خون سے کھینچی گئی لکیریں آزادی کی راہ بتاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہانیہ کی شہادت کو مسلمانوں کے دلوں میں امن و اتحاد کی شمعیں روشن کرنے اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کےلیے جدوجہد کی شمع روشن کرنے کا ذریعہ بنائے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ہمیں جدوجہد اور قربانی کا یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم کتنے ہی تھکے ماندے کیوں نہ ہوں، اسلام کی سربلندی اور آزادی کے حصول کی جدوجہد سے کبھی دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔
مسلم امہ کو متحد ہو کر غزہ اور فلسطین کی قدر و منزلت پہچاننا چاہیے اور اس عمل میں مسلم بھائی چارے کو اجاگر کرنا چاہیے۔
اتحاد و یکجہتی سے ہم آزادی، عزت اور وقار کا اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالٰی ہنیہ شہید کی روح کو بلند درجات سے نوازے اور ہمیں شہید ہنیہ کی جدوجہد کا راہ رو بنائے۔
ان عظیم قربانیوں کے خون میں آزادی کا راستہ ہے اور اس راستے کی حفاظت کرنا اور اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہماری ذمہ داری ہے۔ دین اسلام کے چھپے اور کھلے دشمن اس عظیم شخصیت کی شہادت پر خوشی کے شادیانے نہ بجائیں۔ مسلم امہ کا ہر فرد اسماعیل ہنیہ بن جائے گا اور وہ دین اسلام کی سربلندی کےلیے یہ مشن جاری رکھے گا۔ انشاء اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے